پریم چند کی افسانہ نگاری

پریم چند کی افسانہ نگاری

پریم چند وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے افسانے کو داستانوی سحر سے نکال کر گردوپیش کی حقیقی دنیا سے ہمکنار کیا۔پریم چند کا اوّلین افسانہ”دنیا کا سب سے انمول رتن” ہے جو ١٩٠٧ء  میں شائع ہوا۔اس کہانی میں افسانے کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔ یہ افسانہ ان کے ابتدائی دور کے افسانوی مجموعے” سوز وطن”  میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ پریم چند کے ابتدائی مجموعوں میں“پریم پچیسی” اور “پریم بتیسی“بھی شامل ہیں۔پریم چند ابتداء میں داستانون سے متاثر رہے چناچہ رومانی ماحول،فطرت نگاری،کرداروں کا جذباتی انداز اور اسلوب کی شعریت داستانوں کی یاد دلاتی ہے۔مگر علم و شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری کے آخری دور میں وہ اردو افسانے کو فنی و تکنیکی سطح سے نقطۂ عروج پر پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ یعنی” سوز وطن“جو سیاسی نوعیت کا تھا،کو حکومت نے ضبط کر لیا۔ان کو وطن سے بہت پیار تھا یہی وجہ ہے کہ وہ مغرب کے اندھا دھند تقلید کے خلاف تھے۔وہ چاہتے تھے کہ عوام میں وطنیت کا جذبہ پیدا ہو۔

پریم چند کے اکثر افسانے کے کردار کو پلاٹ گاؤں کی زندگی سے ماخوذ ہیں۔پریم چند نے دیہاتی زندگی کے حقیقی مرقعے پیش کیے ہیں۔ان کے کردار جیتے جاگتے ہیں،ان کے اپنے جذباتی اور نفسیاتی مسائل ہیں،ان کی سادگی،ان کی معصومیت اور نیکی پر انکی نظر تھی۔وہ ان کی جہالت،پسمندگی،اور توہم پرستی سے بھی واقف تھے۔پریم چند نے ہندوستانی زندگی سے متعلق سینکڑوں افسانے لکھے ہیں۔ان کی نظر خاص طور پر طبقاتی سماج کے پیدا کردہ مسائل پر رہی۔انہوں نے چند ایسے افسانے مثلا” پوس کی رات” بڑے گھر کی بیٹی” اور “کفن” لکھے ہیں جو ان کی فنکارانہ بصیرت کی مثال ہیں۔خاص کر “کفن” کو اردو افسانے کی تاریخ میں شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔

پریم چند کے افسانوں میں ایک ذہنی ارتقاء کا احساس ملتا ہے۔مثلا اپنے ادبی سفر میں وہ جن باتوں سے متاثر ہوئے ان کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔انہوں نے اپنے اختراعی ذہن سے داستانوی روایت کی تخیل آرائی، رومانیت وفور جذبات سے انحراف کرکے گردوپیش کے معاشرتی اور سیاسی حقائق کا مشاہدہ کیا اور مختصر افسانے کی صنف کو حقیقت نگاری سے آشنا کیا۔یہ صحیح ہے کہ انھوں نے روسی افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں مثلا چیخوف، موپاساں اور گورکی کی تخلیقات سے استفادہ کیا اور طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں پسمندہ اور مفلوک الحال لوگوں کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور مافوق الفطری ماحول سے نکل کر اور ساتھ ہی یلدرم،امتیاز علی تاج، مہدی افادی اور نیاز فتح پوری کی رومانی فضا سے ہٹ کر حقیقی زندگی کے ٹھوس مسائل پر توجہ مرکوز کی اور حقیقت نگاری کی داغ بیل ڈالی۔

پریم چند کے یہاں حقیقت نگاری کا تصور ملتا ہے۔انہوں نے اپنے عہد، ملک اور لوگوں کے سماجی مسائل و واقعات کا بغور مشاہدہ کیا ہے اور پھر ان کو افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ایسا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے زاویہ نظر،احساس فکر،جمالیاتی کیفیات اور جذباتی ردعمل سے حسب ضرورت کام لیا ہے۔اس طرح سے انہوں نے فن کے تقاضوں کی تکمیل کی ہے۔

ان کے افسانوں کے مجموعے “پریم پچیسی” خاک پروانہآخری تحفہ” زاد راہ” کے نام سے شائع ہوئے جنہیں ملک میں قبول عام حاصل ہوا۔ان کے شروع کے افسانوں میں قدیم داستانوں کا رنگ جھلکتا ہے۔اس زمانے کے افسانوں میں جو خصوصیات نظر آتی ہیں وہ ہیں زندگی کی حقیقتوں سے نظریں چرانے کا انداز،واقعیت سے گریز،تخیل کی فراوانی،قیاس میں نہ آنے والی باتوں کا ذکر، رنگین فضا،اور شاعرانہ زبان۔لیکن یہ پریم چند کے افسانے کا تشکیلی دور تھا۔بہت جلد وہ اس بھول بھلیاں سے باہر نکل آئے۔ بالآخر انہوں نے دیہات کی زندگی کی کامیاب تصویر کشی کی،سماجی مسائل کو اپنی کہانی کا موضوع بنایا۔حب وطنی،سماجی انصاف کی خواہش،گاندھی وادی اور ترقی پسند تحریک نے ان کی کہانیوں کو غذا فراہم کی۔ان کی تخلیقات کا محور دراصل انسان دوستی ہے۔

یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینے کی ہے کہ صرف پریم چند کے موضوعات ہی اہم نہیں ہے بلکہ ان کا فن اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ان کے بیشتر پلاٹ منظم ہیں۔کہانی کی تعمیر پر وہ بہت توجہ کرتے ہیں۔ان کے کردار اصلی اور فطری ہیں۔یہ کردار زندگی بر ہمارا پیچھا کرتے ہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان سے کہیں نہ کہیں ملے ہیں اور ان کے عادات و اطوار سے بخوبی واقف ہیں۔ایک اور خاص بات یہ ہے کہ پریم چند میں انسانی فطرت کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ذہن انسانی کی یہ مہارت ان کے افسانوں کو حقیقی زندگی سے بالکل قریب کر دیتی ہے اس لئے ان کے افسانے ہمیں قصہ کہانی نہیں لگتے بلکہ اصل زندگی کے سچے واقعات معلوم ہوتے ہیں۔

پریم چند کی افسانہ نگاری کا ایک پہلو اور ہے۔وہ اصلاح پسند ہے اور ہندوستانی سماج کی برائیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ غریبوں پر ظلم،سرمایہ داروں اور مذہب کے ٹھیکے داروں کی زیادتیاں،اونچی ذات والوں کا دوسروں کو حقیر سمجھنا اور اسی طرح کی دوسری برائیاں انہیں تڑپا دیتی ہیں۔اس لیے انہیں دور کرنے کی خواہش ان کے دل میں پیدا ہوتی ہے چنا چا وہ اصلاحی افسانے لکھتے ہیں اور مثالی کردار پیش کرتے ہیں۔اکثر کہانیوں میں وہ نیکی کی جیت اور بدی کی ہار دکھاتے ہیں۔بعض جگہ یہ غیر فطری لگتا ہے اور حقیقت نگاری درس اخلاق پر قربان ہو جاتی ہے۔پریم چند کے ناولوں اور افسانوں میں یہ خامی بے شک موجود ہے لیکن اس خامی پر ان کی خوبیاں حاوی ہیں۔

پریم چند کے افسانوں کی ایک بہت بڑی خوبی ان کی سادہ،سلیس اور شفاف زبان ہے۔شروع شروع میں وہ نامانوس اور ثقیل الفاظ استعمال کرتے تھے لیکن آگے چل کر وہ بول چال کی سادہ و سہل زبان استعمال کرنے لگے۔تصنع اور بناوٹ سے وہ رفتہ رفتہ دور ہوگئے اور آخر کار انھوں نے اردو کے افسانوی ادب کو ایک جاندار اور شگفتہ اسلوب عطا کیا۔

١٩٣٦ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا”ہماری کسوٹی پر وہ ادب پورا اترے گا جس میں تفکر ہو،آزادی کا جذبہ ہو،حسن کا جوہر ہو،تعمیر کی روح ہو،زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو،جو ہم میں حرکت ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے،سلائی نہیں کیوں کہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی”خود پریم چند کے شاہکار افسانے” سوتیلی ماں،گلی ڈنڈا،سوا سیر گیہوں،نمک کاداروغہ،زیور کا ڈبہ،خون سفید، ستیہ گرہ،بڑے گھر کی بیٹی،نوک جوک،پوس کی رات،کفن،نجات اس کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔