انشائیہ کی تعریف

0

انشائیہ کی صنف اردو میں انگریزی سے آئی ہے۔انشائیہ کا مفہوم اردو ادب میں تقریباً وہی ہے جو انگریزی میں (Essay) کا ہے۔انشائیہ میں انشائیہ نگار بے تکلف، بے ساختہ اور اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر ہی اپنے تاثرات بیان کرتا ہے۔اس کے سامنے کوئی خاص اصلاحی مقصد نہیں ہوتا۔ وہ اپنے دل کی باتیں مزے لے لے کر بیان کرتا ہے۔ لیکن ان باتوں میں تازگی، ندرت، اور شگفتگی کا ہونا ضروری ہے۔انشائیہ کا لہجہ نرم و نازک ہوتا ہے۔انشائیہ میں روانی کا ہونا بھی ضروری ہے۔فطرت کی منظر کشی انشائیہ کا ایک خاص موضوع ہے۔

انشائیہ مضمون نگاری کا وہ جزو ہے جس میں مصنف اپنے ذاتی اور انفرادی تجربات کو پیش کرتا ہے۔اس پیشکش میں اس کی اپنی شخصیت کافی نمایاں رہتی ہے۔اس طرح انشائیہ میں ایک قسم کا داخلی رنگ پایا جاتا ہے۔انشائیہ کا تعلق تخلیقی ادب سے ہوتا ہے۔اختصار، بےربطی، اظہار، شخصیت اور انبساطی مقصد انشائیہ کی خصوصیات ہیں۔انشائیہ میں طنز و مزاح کا عنصر بھی ملتا ہے لیکن یہ اس کے لیے لازمی نہیں ہے۔

اردو ادب میں انشائیہ کی صنف کا آغاز کب ہوا اور اردو کا پہلا انشائیہ نگار کون ہے اس بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔اس بات میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس صنف نے یہاں آنکھ کھولی یا اسے مغربی ادب سے مستعار لیا گیا۔اصلیت یہ ہے کہ انشائیہ عالمی ادب میں بھی ایک نوآموز صنف ہے اور ابھی تک اس کی خصوصیات قطعیت کے ساتھ متعین نہیں ہوسکی ہیں۔

مولانا محمد حسین آزاد کے دور کو اردو ادب میں انشائیہ کی صبح کاذب اور رشید میں صدیقی کے دور کو صبح صادق کہا گیا ہے۔اور یہ خیال درست ہے۔اس کے علاوہ عبدالحلیم، خواجہ حسن نظامی، مرزا فرحت اللہ بیگ،ملا رموزی، پطرس بخاری اور کنیا لال کپور نے بھی انشائیے لکھے ہیں۔ان لوگوں نے اردو نثر کی اس نازک صنف کی آبیاری کر کے اسے فروغ دیا ہے۔

(١) مولانا محمد حسین آزاد


آزاد کے قلم میں عجیب طرح کا جادو ہے۔ علامہ شبلی نے جو یہ بات کہی ہے کہ:
“وہ (آزاد)گپ شپ بھی ہانک دے تو وحی معلوم ہوتی ہے”
بلکل حرف بحرف درست ہے۔ ان کی کتاب “نیرنگ خیال” کے شہ پاروں کو بھلا انشائیہ کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ “آب حیات” اور “درباراکبری” کے مضامین پر کبھی افسانے کبھی خاکے اور کبھی انشائیے کا گمان ہوتا ہے۔

(٢) عبدالحلیم شرر


لکھنوی زبان پر انہیں دسترس حاصل تھی۔ان کی بیشتر تصانیف فکشن کے ذیل میں اور چند ایک انشائیہ نگاری کے ذیل میں آتی ہیں۔لیکن ان کی تصانیف میں جو انداز بیان ہے اس کی وجہ سے جگہ جگہ انشائیے کا گمان ہوتا ہے۔ان کے خاص ہلکے پھلکے کچھ ایسے مضامین ہیں جنہیں مکمل طور پر انشائیہ کہا جاسکتا ہے۔

(٣) خواجہ حسن نظامی


خواجہ حسن نظامی کا شمار اردو کے صاحب طرز انشائیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔بیگمات کی زبان پر جیسی قدرت ان کو حاصل ہے ایسی کسی اور کو کہاں۔1857ء کے بعد بیگمات کیلا کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا حسن نظامی نے ان دکھوں کو “بیگمات کے آنسوں” عنوان کے تحت لکھا ہے۔ان میں زیادہ تر حقیقت ہے اور کچھ افسانہ بھی۔اندازبیان دلکش اور پرتاثیر ہے۔یہ انشیاء نگاری کی عمدہ مثال ہے۔”جھینگر کا جنازہ” اور “گلاب تمھارا کیکر ہمارا” دو ایسے انشائیے ہے جو کڑی سے کڑی کسوٹی پر بھی پورے اترتے ہیں۔

(٤) مرزا فرحت اللہ بیگ


ان کے ہاں بھی انشاءنگاری عروج پر نظر آتی ہے۔ان کی تحریروں میں ظرافت، انشاء نگاری اور لطف بیان سب گل مل گئے ہیں۔اور انشائیہ میں ان سب کا گھل مل جانا ضروری بھی ہے۔”مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی”، “دلی کا آخری یادگار مشاعرہ” اور “ایک وصیت کی تعمیل میں“کے علاوہ ان کے مضامین کا مطالعہ کیجئے تو انشائیہ کے کئی نمونے ملتے ہیں۔

(٥) رشید احمد صدیقی


رشید احمد صدیقی کی نگارشات میں انشائیہ نگاری کا فن بدرجہ اتم موجود ہے۔مزاح نگار ہونے کے علاوہ ان میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ پیچیدہ اور فلسفیانہ مضامین کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں اس طرح پیش کرتے ہیں کے حیرت ہوتی ہے۔”ارہر کا کھیت” “وکیل” “دو ایسے گھاٹ” اور”چارپائی” بھی عمدہ انشائیے ہیں۔

(٦) پطرس بخاری


احمد شاہ بخاری پطرس ایک اہم انشائیہ نگار ہیں۔ان کے مضامین بے حد مقبول ہوئے۔ “کتے” “سویرے جو کل میری آنکھ کھلی” “ہوسٹل میں پڑھنا” “سینما کا عشق” “لاہور کا جغرافیہ“ان کے عمدہ انشائیے ہیں۔

مختصراً انشائیہ نگاری کا یہ قافلہ ابھی رواں دواں ہے۔مذکورہ مصنفین کے علاوہ کنہیا لال کپور، شوکت تھانوی، اختراورینوی، احمد جمال پاشا، ابن انشاء وغیرہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔آج بھی کئی مصنفین اس صنف کی آبیاری میں مصروف ہیں۔