Dabistan e Lucknow In Urdu | دبستان لکھنو کی ادبی خدمات، سیاسی پس منظر

0

دبستان سے کیا مراد ہے؟

دبستان کسی ایک مخصوص زوایے یا مکتبہ فکر کا نام ہے۔کوئی دبستان ،مکتبہ فکر یا اسکول ایک مخصوص طرح کے حالات ، اصولوں اور قواعد و ضوابط کی پیروی کرتا ہے۔ ایک جیسی رائے ،فکر اور سیاسی وسماجی حالات اور ایک نوعیت کے فلسفہ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد کا گروہ بھی ایک دبستان کہلاتا ہے۔

دبستان اور تحریک میں فرق:

دبستان اور تحریک میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ دبستان کسی مخصوص علاقے کا ایک مشترکہ رجحان ہوتا ہے۔ دبستان کی تخلیق میں کسی باقاعدہ جدوجہد کا دخل نہیں ہوتا ہے۔ یہ مخصوص علاقے کی فضا میں پروان چڑھنے والا رویہ ہوتا ہے۔

جبکہ تحریک ایک بامقصد رجحان ہوتا ہے جس کے لیے باقاعدہ جدوجہد کی جاتی ہے۔دبستان میں استادی اور شاگردی والے رشتے کا تعلق بھی پایا جاتا ہے اس میں کچھ مخصوص اصولوں ،موضوعات ،طرزِاسلوب اور مواد کی پابندی کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ تحریک کا دائئرہ کار وسیع جبکہ دبستان کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ کسی دبستان سے تعلق رکھنے والے شاعر یا ادیب ایک مخصوص طرز عمل کو اختیار کرتے ہیں تو ان کے شاگرد ان اساتذہ کے اسی رجحان کی تقلید کرتے ہیں۔یوں ایک ہی طرز فکر اور اسلوب اختیار کرنے والے افراد کو اس دبستان سے منسلک تصور کیا جاتا ہے۔

اردو ادب میں دو بڑے دبستانی مکتبہ فکر گزرے ہیں جنھیں ہم دبستان دہلی اور دبستانِ لکھنؤ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس دور میں موجود دکن ، رام پور اور بھوپال وغیرہ کو ادبی مراکز کے نام سے تو جانا جاتا ہے لیکن انھیں دبستان نہیں کہا جاسکتا ہے۔دبستان دہلی اور لکھنؤ کی اس قدر ادبی اہمیت ہے کہ ان کے حوالے سے دلّی کا دبستان شاعری از نور الحسن ہاشمی ، لکھنو کا دبستان شاعری از ابواللیث صدیقی جیسی قابل ذکر کتب بھی موجود ہیں۔

دبستانِ لکھنو کا سیاسی پسِ منظر:

دبستان لکھنؤ سے مراد شعر و ادب کا وہ رنگ ہے جو لکھنؤ کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا اور اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو شاعری اور دہلوی شاعری سے مختلف ہے۔ جب لکھنؤ مرقع اہل دانش و حکمت بنا تو اس سے پہلے علم وادب کے دو بڑے مرکز دہلی اور دکن شہرت حاصل کر چکے تھے۔ لیکن جب دہلی کا سہاگ لٹا۔

دہلی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تو دہلی کے اہل علم فضل نے دہلی کی گلیوں کو چھوڑنا شروع کیا جس کی وجہ سے فیض آباد اور لکھنؤ میں علم و ادب کی محفلوں نے فروغ پایا۔سال 1707ء اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اُن کے جانشین اپنے تخت کے لیے خود لڑنے لگے۔ ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے مرکز مزید کمزور ہوا۔ اور باقی کسر مرہٹوں، جاٹوں اور نادرشاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے پوری کر دی۔

سال 1722ء میں بادشاہ دہلی نے سعادت علی خان کو اودھ کا صوبیدار مقر ر کیا۔ مرکز کی کمزوری سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے جلد ہی سعادت علی خان نے خود مختاری حاصل کر لی۔ اور اودھ کی خوشحالی کے لیے بھر پور جدوجہد کی جس کی بنا پر اودھ میں مال و دولت کی فروانی ہوئی۔ صفدر جنگ اور شجاع الدولہ نے اودھ کی آمدنی میں مزید اضافہ کیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوششیں کیں۔ آصف الدولہ نے مزید اس کام کو آگے بڑھایا۔

لیکن دوسری طرف دہلی میں حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ امن و سکون ختم ہو گیا۔ تو وہاں کے ادباءو شعراءنے دہلی چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اور بہت سے شاعر لکھنؤ میں جا کر آبا د ہوئے۔ جن میں میرتقی میر بھی شامل تھے۔دولت کی فروانی، امن و امان اور سلطنت کے استحکام کی وجہ سے اودھ کے حکمران عیش و نشاط اور رنگ رلیوں کے دلدادہ ہو گئے۔

شجاع الدولہ کو عورتوں سے خصوصی رغبت تھی جس کی بنا پر اس نے محل میں بے شمار عورتوں کو داخل کیا۔ حکمرانوں کی پیروی امرا نے بھی کی اور وہ بھی اسی رنگ میں رنگتے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بازاری عورتیں ہر گلی کوچے میں پھیل گئیں۔ غازی الدین حیدر اور نصیر اور نصیر الدین حیدر نے آباؤ اجداد کی پیروی جاری رکھی اور واجد علی شاہ نے تو اس میدان میں سب کو مات دے دی۔

سلاطین کی عیش پسندی اور پست مذاقی نے طوائف کو معاشرے کا اہم جز بنا دیا۔ مادی وسائل کی کثرت نے خارجی مظاہر کو تیز رفتار کر دیا۔بازار با رونق، عمارتیں خوبصورت ، سیرگاہیں اور رقص و موسیقی کی محفلیں یہاں کی روایات میں گھر کرنے لگیں اور ان کی ظاہری داری پر بہت زور دیا جانے لگا۔ طوائف کے کوٹھے تہذیب و معاشرت کے نمونے قرار پائے جہاں بچوں کو شائستگی اور آداب محفل سکھانے کے لیے بھیجا جانے لگا۔

لکھنویت یا دبستانِ لکھنؤ سے کیا مراد ہے:

لکھنویت ،دہلویت کی ضد ہے۔ دبستانِ لکھنو کی خصوصیات کے بیان کے لیے لکھنویت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔لکھنویت سے مراد دراصل زندگی کا ایسا انداز نظر ہے جو خارجی مظاہر سے دلچسپی رکھتا ہے۔اس بنیاد نشاط پرستی پر رکھی گئی ہے جس میں جنس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ لکھنویت کا نمایاں وصف خارجیت اور رجائیت ہے۔ یہاں رنج و غم کی بجائے قہقہوں اور دل لگی کا سامان میسر ہے۔ لکھنویت کو دہلویت کے برعکس واہ کی شاعری بھی کہا جاسکتا ہے۔ لکھنویت کے اوصاف میں سراپا نگاری ، تمثیلیت ، مضمون بندی ، ابتذال ، جبکہ لفظی حثیت سے قافیہ پیمائی ، رعایت لفظی ، لغت سازی ، غرابت اور بندش کا بیان ملتا ہے۔

دبستانِ لکھنؤ کی خصوصیات:

دبستانِ لکھنؤ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کی شاعری میں نشاطیہ عنصر غالب نظر آتا ہے۔ یہ لکھنؤ کی پُرامن زندگی اور خوشحالی کا عطیہ ہے۔ لکھنؤ کی شاعری میں عورت کے حسن کا بھرپور بیان ملتا ہے۔ اس کے زیور اور لباس کا ذکر جابجا نظر آتا ہے۔ لکھنوی شاعری میں تصوّف کے مضامین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں کے رنگین ماحول میں نہ صوفیوں کا گزر تھا، نہ صبر و قناعت کی تعلیم کی ضرورت۔

دبستانِ لکھنؤ کی شاعری زبان کے نقطۂ نظر سے زیادہ دلکش اور پرکشش ہے۔ زبان کے سلسلے میں لکھنؤوالوں نے اہل دہلی سے اپنا راستہ الگ نکالا۔ شعرائے لکھنؤ نے جذبات سے زیادہ الفاظ کی نوک پلک سنوارنے اور زبان میں لطافت پیدا کرنے پر زور دیا۔ لکھنؤ کے عیش و نشاط، امن و امان اور شان و شوکت کے اس ماحول میں فنون نے بہت ترقی کی۔ راگ رنگ اور رقص و سرور کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔

دہلی کی بے امنی اور انتشار پر اہل علم و فن اودھ اورخاص کر لکھنؤ میں اکھٹا ہونا شروع ہو گئے۔ یوں شاعری کا مرکز دہلی کی بجائے لکھنؤ میں قائم ہوا۔ دربار کی سرپرستی نے شاعری کا ایک عام ماحول پیدا کر دیا۔ جس کی وجہ سے شعر و شاعری کا چرچا اتنا پھیلا کہ جابجا مشاعرے ہونے لگے۔ امرا، روساء اور عوام سب مشاعروں کے دیوانے تھے۔

ابتدا میں شعرائے دہلی کے اثر کی وجہ سے زبان کا اثر نمایاں رہا لیکن، آہستہ آہستہ اس میں کمی آنے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنو کی تہذیب میں دہلی جیسی گہرائی تو نہ تھی مگر لکھنؤ کی تہذیب کے حصے میں شائستگی،لطافت ،سادگی آرائش وجمال اور نزاکت وغیرہ کا رنگ در آیا۔طوائف دہلی میں بھی موجود تھی مگر لکھنؤ میں طوائف تہذیب و ثقافت اور رکھ رکھاؤ کا مرکز تھی۔

آصف الدولہ کے عہد میں دہلی سے آنے والے شعراء کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ دلی سے آنے والے شعرا نے اپنی شاعری میں دلی کے مضامین و خیالات بھی پیش کیےمگر جلد ان کے ہاں لکھنو کی تہذیب و ثقافت کا رنگ نمایاں ہونے لگا۔ مصحفی اور انشاء کے عہد تک تو دہلی کی داخلیت اور جذبات نگاری اور لکھنؤ کی خارجیت اور رعایتِ لفظی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ لکھنؤ کی اپنی خاص زبان اور لب و لہجہ بھی نمایاں ہوتا گیا۔ اور یوں ایک نئے دبستان کی بنیاد پڑی جس نے اردو ادب کی تاریخ میں دبستان لکھنؤ کے نام سے ایک مستقل باب کی حیثیت اختیار کر لی۔

دبستانِ لکھنؤ کا شعر و ادب:

لکھنوی ادب ایک الگ ماحول اور یہاں کی شاعری ایک الگ شعری تجربے کی پیداوار ہے۔ اس کو دہلی کی تہذیبی روایت کے رد عمل کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔دلی والوں نے جن اوصاف یعنی خارجیت، مجلسی زندگی اور آرائش و زیبائش کو رد کیا اسے اہل لکھنو نے اپنایا۔دبستان لکھنو میں مثنوی نگاری کو رواج حاصل ہوا۔مثنوی کی صنف کو اصل فنی بلندی لکھنو میں ملی۔ اس لیے سحر البیان ، گلزار نسیم ، زہر عشق جیس مثنویاں تخلیق پائیں۔

میر امن جس کا تعلق دہلی سے تھا لکھنؤ آگیا اس نے بارہ مثنویاں لکھیں۔جیسے کہ نقل کلاونت ، نقل قصاب اور نقل زن فاحشہ وغیرہ مگر سب سے زیادہ شہرت سحر البیان نے سمیٹی۔نواب مرزا شوق کی مثنوی زہر عشق کو اردو کی بدنام مثنوی کہا جاتا ہے۔ اس دور میں مثنوی ہی نہیں بلکہ لکھنؤ کے ماحول پر شعیت کا اثر غالب ہونے کی وجہ سے مرثیہ کی صنف کو بھی مقبولیت اود عروج حاصل ہوا۔ میر انیس اور مرزا دبیر نے اس صنف کو مقبولیت بخشی۔

شاعری کی بات کی جائے تو دبستانِ لکھنؤ کے نمائندہ شعراء میں شیخ غلام علی ہمدانی مصحفى، سید انشاءاللہ خان انشاء ، شیخ قلندر بخش جرات ، حیدر علی آتش اور شیخ امام بخش ناسخ شامل ہیں۔

واجد علی شاہ اگرچہ لکھنو کا نواب تھا مگر شعر و شاعری کا دلدادہ تھا۔ اس نے افسانہ عشق ، دریائے عشق ، بحر الفت جیسی مثنویاں تخلیق کیں۔اس نے لفظوں کی بنا پر ویسی شاعری کی جو اس وقت کے لکھنوی ذوق کے عین مطابق تھی۔

دل گویا کو ترے عشق نے خاموش کیا
یاد غیروں کی ہوئی مجھ کو فراموش کیا

لکھنوی معاشرت میں ایک دور ایسا بھی آیا جب زنانہ پن شعر کہنے اور زندگی گزارنے کا انداز بنا۔ ادب میں اس کی صورت ریختی کی صورت میں در آئی۔ ریختی رنگین کی ایجاد ہے جس کا ذکر انشا اللہ خان انشاء نے دریائے لطافت میں بھی کیا۔

یا رب شب جدائی تو ہر گز نہ ہو نصیب
بندی کو یوں جو چاہے تو کولہو میں پیل ڈال

شیخ غلام علی ہمدانی مصحفى نے اردو شاعری میں آٹھ دیوان یاد کے طور پر چھوڑے۔ مصحفی پر دہلوی رنگ کی صورت پذیری جلوہ گر ہو چکی تھی مگر لکھنو کے ماحول سے بڑھ کر انشا سے مقابلوں نے انھیں لکھنوی رنگ اپنانے پر مجبور کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دہلویت اور لکھنویت کے امتزاج نے ان کے کلام میں شیرنی پیدا کر دی۔

ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
تیرے کوچے اسی بہانے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا

انشاء اللہ خان انشاء کی جدت اور ذہانت انھیں ان کے ہم عصر شعرا سے منفرد بناتی ہے۔ انشا نے ادب میں بے نقط مثنوی اور بے نقط دیوان چھوڑے۔ دریائے لطافت میں ہندوستانی قواعد پر بھی نظر ڈالی۔ غزل میں الفاظ کے تنوع سے تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ان کی شاعری میں بعض جگہوں پر قافیہ پیمائی اور ابتذال کا رنگ بھی ملتا ہے۔ان کی غزل کا عاشق لکھنوی تمدن کا نمائندہ ہے۔

گر نازنیں کہے کا برا مانتے ہیں آپ
میری طرف تو دیکھیے میں نازنیں سہی

جرات اور آتش لکھنؤ کے جدید دور کے نمائندہ شاعر ہیں۔انھیں دبستانِ لکھنؤ کے اصل رنگ کا ترجمان بھی کہا جاسکتا ہے۔ آتش کے دور میں لکھنؤ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ لیکن آتش اور جرات کے دور میں ہی لکھنو کا رنگ کچھ ماند پڑ چکا تھا یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ میں آتش کے کلام میں دلی کے میر جیسی گونج سنائی دیتی ہے۔ان کی شاعری کے داخلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دبستان لکھنو کی شاعری کے خلاف ردعمل ہے۔آتش نے مرصع سازی کے ساتھ خالص شاعری کو اپنی تجربہ گاہ بنایا۔

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

دبستانِ لکھنؤ میں ناسخ وہ شاعر ہے جس کی کوششوں سے لکھنو کا ایک منفرد شعری دبستان وجود میں آیا۔اس نے لکھنؤ کا ادبی ماحول بدلا تو مصحفی جیسے پختی شاعربھی اس کے رنگ میں شاعری کرنے لگے۔ناسخ نے اصلاح زبان کی کوششوں کو تیز کیا۔ اس نے زبان کے کچھ معیار اورعلم عروض اور کوافی کے ذریعے طے کیے۔ان کا کہنا تھا کہ جتنے کم لفظوں میں شعر کا مطلب ادا ہو گا اتنا اچھا ہو گا۔ ناسخ نے میر کے عہد کے 104 اور مصحفی کے 17 الفاظ متروک کیے۔

رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے کوئی
دل ہی دل میں ہم اسے یاد کیا کرتے ہیں

مجوعی طور پر دیکھا جائے تو لکھنویت زبان پر احساس کلام رکھنے کے باعث ایک مخصوص ماحول و مقام اور وقت کی چمک دکھا کر رخصت ہو گئی۔ اس کا اہم کارنامہ محض رنگینی بیان ، لغت تراشی اور زبان سازی سمجھا جائے گا۔

خود آموزی کے سوالات:

  • لکھنویت سے کیا مراد ہے؟
  • خارجیت یا رجائیت کسے کہتے ہیں؟
  • دبستانِ لکھنؤ کے مختصر سیاسی حالات کا جائزہ لیں؟
  • دبستانِ لکھنؤ کی نمایاں خصوصیات کیا ہیں؟
  • دبستانِ لکھنؤ میں کن اصناف نے ترقی پائی؟
  • دبستانِ لکھنؤ کے اہم مثنوی نگاروں کے نام لکھیں؟
  • دبستانِ لکھنو کے نمائندہ شعراء کے نام لکھیں؟
  • دبستانِ لکھنؤ میں اصلاح زبان کا کام کس شاعر نے انجام دیا؟
  • ناسخ نے میر و مصحفی کے عہد کے کتںے الفاظ متروک کیے؟
  • مصحفی نے کس کے رنگ میں شاعری کی؟