“کفن” کا تنقیدی جائزہ

 “کفن” کا تنقیدی جائزہ

افسانہ “کفن” پریم چند کے فن کا وہ نمونہ ہے جو ان کی سبھی تخلیقات پر بھاری ہے۔پریم چند نے بے شمار افسانے لکھے اور ہر افسانے میں اپنے فن کے جوہر دکھانے کی کوشش کی ہے۔لیکن ہم فنی تقاضوں کو جس طرح اس افسانے میں پورا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ویسے کسی اور افسانے میں نہیں دیکھتے۔کہانی کا سلیقہ، پلاٹ کی تعمیروتشکیل کی ہنر مندی اور کرداروں کو زندہ جاوید بناکر پیش کرنے کی خوبی،سب کچھ اس افسانے میں موجود ہے۔یہ افسانہ دوسرے تمام افسانوں سے ہٹ کر تکمیل کا ایک بالکل نیا تجربہ پیش کرتا ہے۔اس افسانے میں فوٹوگرافی کی تکنیک برتی گئی ہے۔یہ افسانہ شعور کی رو کی تکنیک کا اعلی نمونہ پیش کرتا ہے۔

افسانہ”کفن” میں دو آدمیوں گیسو اور مادھو کی کہانی پیش کی گئی ہے جو ذات سے چمار ہیں لیکن دونوں ہی انتہائی کام چور اور آلسی ہیں۔ایک گھنٹہ کام کرتے ہیں تو دو گھنٹے چلم پیتے ہیں اس لئے انہیں کوئی کام پر نہیں رکھتا تھا۔گھر میں مٹھی بھر اناج ہوتا تو ان کے لئے کام کرنے کی قسم تھی۔جب فاقوں پر نوبت آتی تو پھر کوئی مزدوری تلاش کرتے یا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور انہیں بازار میں بیچتے۔گیسو ساٹھ سال کی عمر کا کاہل الوجود کردار ہے اور مادھو اس کا نوجوان بیٹا،جو مفت خوری اور تن پروری کے معاملے میں اپنے باپ سے کسی طرح کم نہیں تھا۔گیسو کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا۔مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی اس کی بیوی بدھیا جو کہ اپنے سسر اور شوہر کے برعکس جفاکش اور محنتی ہے،اس کے آنے سے یہ دونوں اور بھی زیادہ آلسی اور آرام پرست ہوگئے تھے۔کہانی کے آغاز میں مادھو کی بیوی کو بچہ ہونے والا ہے اور وہ جھونپڑے کے اندر درد زہ کی تکلیف سے کراہ رہی ہے اور یہ دونوں بے غیرت بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے چوڑی کے بھنے ہوئے آلو کو چھیل چھیل کر کھا رہے ہیں۔دونوں اس کا درد محسوس تو کرتے ہیں لیکن اندر جا کر اسے دیکھنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔کیونکہ اندیشہ ہے اگر ایک اندر جائے گا تو دوسرا آلو کا بڑا حصہ صاف کر دے گا۔وہ آلو کھا کر بے فکری سے سو جاتے ہیں۔صبح جب انکی آنکھ کھلتی ہے تو بدھیا کو مرا ہوا پاتے ہیں۔باپ بیٹا دونوں معنوی آہ و بکا اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کفن کے لیے چندہ اکٹھا کرنے زمیندار کے پاس جاتے ہیں۔زمیندار ان کی خصلت کو مدّنظر رکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں دو روپے نکال کر دیتا ہے۔اسی طرح ایک گھنٹے کے اندر اندر پانچ روپے کی معقول رقم جمع ہو جاتی ہے۔دوپہر کو گیسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے جاتے ہیں لیکن دونوں کفن کا کپڑا خریدنے کے بجائے ادھر ادھر گھومتے رہتے ہیں اور شام ہوتے ہی یہ دونوں اپنی بے ضمیری اور سفا کا ثبوت دیتے ہوئے ایک شراب خانے میں پہنچ جاتے ہیں۔وہاں جاکر دونوں شراب پیتے ہیں،پوڑیاں، گوشت، کلیجی اور مچھلی کھاتے ہیں۔نشے میں دھت ہو کر اعلیٰ اصولوں اور قدروں پر گفتگو کرتے ہیں،خوشحال لوگوں پر طنز کرتے ہیں،سماج کا مذاق اڑاتے ہیں،آخرکار نشے میں بد مست ہو کر وہیں بے ہوشی کے عالم میں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔

یہ اس افسانے کا مختصر سا خلاصہ ہے، اس افسانے میں پریم چند حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ بھوک اور ناداری کی انتہا انسان کو حیوانیت کی سطح پر لے آتی ہے اور وہ رشتوں کی اہمیت کا احساس بھی بھول جاتا ہے۔

اس افسانے کو پریم چند نے تین حصوں میں بیان کیا ہے۔ پہلے حصے میں کرداروں سے متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ پوری صورت حال اور پس منظر ہمارے سامنے لایا ہے۔کہانی کے تینوں مرکزی کردار نہ صرف یہ کہ اپنا پورا تعارف کراتے ہیں بلکہ اپنی حرکات و سکنات کا جواب بھی فراہم کرتے ہیں۔

دوسرے حصے میں مادھو کی بیوی کی موت سے پیدا ہونے والا مسئلہ کفن نمودار ہوتا ہے۔گیسو اور مادھو کے تاثرات اور کفن کی وصولی کے لئے کشمکش کا ذکر ملتا ہے اور تیسرے حصے میں غربت اور افلاس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے حسی اور بے ضمیری کو بے نقاب کیا ہے۔

کرداروں کی بے حسی اور بے ضمیری کو پریم چند نے بھرپور انداز میں واضح کیا ہے۔پریم چند نے تصویر کے دونوں رخوں کو سامنے لا کر ہمیں واضح طور پر کرداروں کی خصلت سے آشنا کیا ہے۔اس افسانے میں کل تین کردار ہیں۔گیسو، مادھو اور بدھیا۔

“کفن” کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم بیک وقت کی حقیقتوں کا سامنا کرتے ہیں۔ہم اپنے معاشرے کے نقائص سے واقف ہوتے ہیں جس میں گیسو اور مادھو جیسے لوگ موجود ہیں جو اپنی ذلیل ترین حرکات وسکنات کے باوجود اپنے ہر عمل کا جواز بھی پیش کرتے ہیں اور ہم کہانی کار کے مقصد سے کہانی کے وسیلے سے پوری طرح واقف ہوجاتے ہیں۔

اس افسانے میں پریم چند کا فن عصریت سے ماورا ہو کر آفاقیت کے امکانات پیدا کرتا ہے یہ افسانہ ان کی فنکارانہ قوت کا مظہر ہے۔انہوں نے اس میں کرداروں کے اندرون میں اتر کر لاشعوری اور نفسیاتی واردات کا احاطہ کیا ہے۔بیانیہ کے ساتھ ساتھ تیز رفتار ڈرامائی واقعات کی مدد سے کرداروں کی باطنی کیفیات کو بروئے کار لایا ہے۔یہ واقعات حقیقت کا التباس پیدا کرتے ہیں اور اس طرح پورے معاشرے کی عکاسی ہوجاتی ہے۔