شاد عظیم آبادی۔ ایک غزل

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم

اے درد بتا کچھ تو ہی پتہ اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بے تاب نہاں یا آپ دل بےتاب ہیں ہم

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

اے ضعف تڑپتے جی بھر کر تو نے مری مشکیں کس دی ہیں
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم

ہو جائے بکھیڑا پاک کہیں پاس اپنے بلا لیں بہتر ہے
اب درد جدائی سے ان کے اے آہ بہت بے تاب ہیں ہم

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم

مرغان قفس سے پھولوں نے اے شاد یہ کہلا بھیجا ہے
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم



Leave a Comment